مزید پڑھیں

بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دورِ اقتدار پر ایک نظر

تاریخ میں لکھا گیا کہ ٥ اگست ٢٠٢٤ کی دوپہر بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد نے عوام کے سامنے شکست تسلیم کر لی۔ بنگلہ دیش کی سب سے طویل عرصے تک وزیر اعظم رہنے والی 75سالہ شیخ حسینہ واجد نے آج اپنے منصب سے استعفیٰ دے دیا، بنگلادیش کی عوام کے دباؤ اور آرمی چیف کے الٹیمیٹم پر حسینہ واجد نے عہدے سے استعفیٰ دیا اور سرکاری ہیلی کاپٹر میں بھارت روانہ ہوگئیں۔

گوپال گنج ضلع کے تنگی پارہ میں پیدا ہونے والی شیخ حسینہ بابائے قوم شیخ مجیب الرحمٰن اور بیگم فضل النساء کے 5بچوں میں سب سے بڑی ہیں۔ شیخ حسینہ واجد 1966 میں ایڈن گرلز کالج کی طلبہ یونین کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔ وہ ایڈن انٹرمیڈیٹ گرلز کالج چھاترا لیگ کی صدر بھی بنیں۔

شیخ حسینہ نے 1969 کی عوامی بغاوت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، انہوں نے 1973 میں ڈھاکا یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کی۔ ان کی شادی نامور ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر محمد واجد سے ہوئی، جن میں سے 2بچے سجیب واجد جوائے اور صائمہ واجد پتول ہیں۔

سیاسی کیریئر کا آغاز

شیخ حسینہ واجد کا سیاسی کیریئر اس وقت شروع ہوا جب ان کے پورے خاندان کو قتل کروا دیا گیا، جس میں صرف وہ اور ان کی بہن شیخ ریحانہ بچ گئیں کیونکہ وہ اس وقت مغربی جرمنی کے دورے پر تھیں۔

جس کے بعد شیخ حسینہ واجد جلاوطنی کی زندگی گزارنے پر مجبور رہیں کیونکہ اس وقت کی حکومت کی طرف سے ان کی وطن واپسی پر پابندیاں لگائی گئی تھیں۔ وہ 1981 میں جلاوطنی کے دوران عوامی لیگ کی صدر منتخب ہوئیں۔

فوجی حکومت کے خلاف مزاحمت بڑھنے کے بعد شیخ حسینہ 6سال بعد بنگلہ دیش واپس آئیں، لاکھوں پرجوش حامیوں نے ان کا استقبال کیا۔ واپس آتے ہی شیخ حسینہ نے 15 پارٹیوں کا اتحاد بنایا جس کے نتیجے میں فوجی حکومت کے خلاف طلبہ کی ایک طاقتور تحریک شروع ہوئی۔

طلبہ تحریک کا آغاز اور اپوزیشن لیڈر

14 فروری 1983 کو فوج ڈھاکا یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئی، مشتعل طلبہ کو روکنے کے لیے گولیاں برسائیں اور لاٹھیوں کا استعمال کیا۔ 15 فروری کو شہید مینار پر ایک ریلی کے دوران احتجاج میں شیخ حسینہ کو گرفتار کرلیا گیا۔

سال 1984 میں ان کو فروری اور نومبر میں گھر میں نظر بند کردیا گیا۔ مارچ 1985 میں وہ مسلسل 3ماہ تک گھر میں نظر بند رہیں۔ اور بالآخر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ کی وجہ سے ان کو رہا کردیا گیا۔

اس دوران شیخ حسینہ نے انتخابات میں حصہ لیا، اور 104 نشستوں کے ساتھ پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر بن گئیں، اور اس وقت کی حکومت کو پریشان کرتی رہیں۔ اس دوران سرکاری سیکرٹریٹ کے سامنے ایک مظاہرے میں شیخ حسینہ پر گولیاں چلا دیں لیکن لوگوں کی شدید مزاحمت کے باعث پولیس ان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی۔

جنوری 24، 1988 کو جب وہ چٹاگانگ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کر رہی تھیں، پولیس نے ہجوم پر گولی چلا دی، جس سے 80 افراد ہلاک ہوگئے اور شیخ حسینہ اور ان کے ساتھیوں کو لاپتا کردیا۔ شیخ حسینہ نے اقتدار کی پرامن منتقلی کے لیے آئینی فارمولے کا اعلان کیا، جس کے بعد وہ 27 نومبر 1990 کو دوبارہ قید ہوگئیں۔

پہلی بار وزیر اعظم کب بنیں

انتخابات نہ جیتنے کے باوجود، وہ کسانوں اور مزدوروں کے لیے ملک گیر مہم چلاتی رہیں۔ بالآخر 23 جون 1996 کو شیخ حسینہ نے پہلی بار وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا۔ 12 دسمبر 1996 کو شیخ حسینہ نے بھارت کے ساتھ 30 سالہ گنگا پانی کے معاہدے پر دستخط کیے۔ شیخ حسینہ نے پربتیو چٹاگانگ جونو شونگوتی سمیتی کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرکے چٹاگانگ پہاڑی علاقوں میں 25 سالہ طویل شورش کا خاتمہ کیا۔

دوسری اور تیسری بار وزیر اعظم کیسے بنیں

سال 29 دسمبر 2008 کو شیخ حسینہ دوسری بار وزیراعظم بنیں کیونکہ عوامی لیگ نے بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ ملکی اور بین الاقوامی مبصرین نے انتخابات کو آزادانہ، منصفانہ اور قابل اعتبار انتخابات قرار دیا۔

انسانیت کی ماں کا لقب کیوں ملا؟

تقریباً 10لاکھ روہنگیا میانمار کی فوج کے ظلم و ستم سے بچنے کے لیے بنگلہ دیش بھاگے تو بنگلہ دیش ان کا کھلے دل سے استقبال کیا، جس کےبعد شیخ حسینہ نے دلیری سے اعلان کیا کہ اگر ہم 160 ملین کو کھانا کھلا سکتے ہیں تو ہم 7لاکھ روہنگیا مہاجرین کو بھی کھانا کھلا سکتے ہیں، جس پر ان کو انسانیت کی ماں کا لقب دیا گیا۔

چوتھی بار وزارت عظمیٰ کی کرسی

شیخ حسینہ نے مسلسل تیسری بار کامیابی حاصل کی جو مجموعی طور پر ان کی چوتھی بار تھی، انتخابات میں بنگلہ دیش عوامی لیگ نے گیارہویں عام انتخابات میں 300 پارلیمانی نشستوں میں سے 288 پر کامیابی حاصل کی۔

واضح رہے شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کی لڑکھراتی کرسی اب ٹوٹ چکی ہے اور عوام کی مقبول ترین لیڈر نے اپنے چند غلط فیصلوں کی بدولت عوام کے ہاتھوں ہی دباؤ میں آکر استعفیٰ دے دیا، اور آرمی چیف کے الٹی میٹم پر ملک چھوڑ کر بھارت روانہ ہوگئی ہیں۔

خیال رہے گزشتہ کئی روز سے بنگلہ دیش میں کوٹا سسٹم کے خلاف طلبا کا احتجاج زور پکڑ گیا تھا جس کے نتیجے میں مزاحمت کے دوران تقریباً 300افراد ہلاک ہوچکے تھے۔