مزید پڑھیں

ایک ایسا مشکوک پیغام جو آپ کے لیے بڑے نقصان کا باعث بن سکتا ہے

یہ حادثہ آپ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، اگر آپ نے احتیاط نہ کیا تو… کہانی کچھ اس طرح ہے کہ کوریئر آپ کا پارسل ڈیلیور کرنے میں ناکام رہا ہے‘ یہ وہ مشکوک پیغام ہے جو ہم اکثر اپنے موبائل پر موصول کرتے ہیں۔ آن لائن شاپنگ کے لیے طلب کی جانے والی معلومات اور ایک مشکوک لنک کے ذریعے پاکستان میں صارفین کو ایک ’فشنگ سکیم‘ کا سامنا ہے۔

رواں ماہ پشاور سے تعلق رکھنے والے نوجوان فیضان رضا نے لاہور میں اپنے ایک دوست کو پارسل بھیجا تھا۔ ابھی یہ پارسل راستے میں ہی تھا کہ انھیں اپنے فون پر یہ پیغام موصول ہوا کہ ’کوریئر آپ کا پارسل ڈیلیور کرنے میں ناکام ہوگیا۔‘

انھیں اس مشکوک پیغام میں مزید کہا گیا کہ ’دیے گئے پتے میں کچھ کمی پیشی کے باعث پارسل کی ڈیلیوری میں تاخیر ہو رہی ہے۔‘ میسج میں ایک لنک دیا گیا اور کہا گیا کہ اس لنک پر کلک کر کے اپنا درست پتہ درج کریں۔

ایک نجی یوٹیورسٹی میں بطور پروفیسر کام کرنے والے فیضان رضا نے جب اس لنک پر کلک کیا تو وہ ایک ویب سائٹ پر پہنچ گئے جس پر ’پاکستان پوسٹ‘ کا نام اور لوگو درج تھے۔

انھیں پتہ درج کرنے کے بعد اضافی فیس کی مد میں 60 روپے ادا کرنے کا کہا گیا مگر تمام تفصیلات دینے کے بعد ان کے بینک اکاؤنٹ سے قریب 58 ہزار روپے کٹ چکے تھے۔ یہ وہی مشکوک ٹیکسٹ میسج ہے جو پاکستان میں فیضان رضا کے ساتھ ساتھ کئی لوگوں کو اپنے موبائل فون پر موصول ہو رہا ہے۔

یہ درحقیقت آن لائن جعلسازی کا ایک نیا طریقہ ہے جس میں پیغام میں موجودہ لِنک پر کلک کرنے کی صورت میں درست ایڈریس کے علاوہ بینک کارڈ کی تفصیلات بھی مانگی جاتی ہیں۔

ڈیجیٹل ادائیگی سے متعلق اپنی تفصیلات درج کر کے صارف ایک جال میں پھنس جاتے ہیں جسے انٹرنیٹ کی دنیا میں ’فشنگ سکیم‘ کہتے ہیں۔ بی بی سی نے اس بارے میں پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حکام سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

جب فیضان نے اس ٹرانزیکشن کے حوالے سے بذریعہ ای میل اپنے بینک میں شکایت درج کرائی تو انھیں جواباً یہ بتایا گیا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ اور اس میں بینک کی کوئی ذمداری نہیں ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں ہمارے پاس کوئی معلومات ہیں۔

کریڈٹ کارڈز بنانے والی عالمی کمپنی ویزا نے سال 2023 کے دوران پاکستان میں آن لائن شاپنگ اور ڈیجیٹل ادائیگیوں پر ایک سروے کیا تھا۔ اس میں یہ خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ 91 فیصد پاکستانی صارفین جعلسازوں کے پیغامات پر جواب دے سکتے ہیں۔ سروے میں شامل لوگوں میں سے 52 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اس طرح کے فراڈ کا شکار ہو چکے تھے۔

یہ سوچ کر انھوں نے ویب سائٹ پر اپنے بینک کارڈ کی تفصیلات درج کر دیں۔ کچھ وقت گزرنے کے بعد انھوں نے بینک بیلنس دیکھا تو وہ حیران رہ گئے کہ اکاؤنٹ سے 57 ہزار 451 روپے کی ٹرانزیکشن ہوچکی ہے۔

جب انھوں نے اپنے دوست کو اس فراڈ کے بارے میں بتایا کہ انھیں معلوم ہوا کہ ’پارسل موصول ہونے سے کچھ گھنٹوں پہلے میرے دوست کو بھی یہ مشکوک پیغام آیا تھا کہ لنک پر درست پتہ درج کریں۔‘ لیکن وہ ایسا کرنے ہی والے تھے کہ میں نے ان کو کال کر کے سارا ماجرا بتا دیا۔

فیضان اب تک اس تمام صورتحال سے کافی پریشان ہیں۔ وہ اپنا بینک اکاؤنٹ بند کروا چکے ہیں اور فون کو بھی وائپ کر چکے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ہم ایسے چالاک فراڈیوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔

سید عون عباس بخاری پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے سے تقریباً دس سال منسلک رہے ہیں اور آج کل وہ ایک نجی بینک میں بطور انفارمیشن سکیورٹی چیف کام کر رہے ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ جیسے کسی مچھلی کو پکڑنے کے لیے کنڈا لگایا جاتا ہے ویسے ہی فشنگ سکیم میں جعلساز لوگوں کو ایسے جھانسے دیتے ہیں۔ اس مذکورہ فشنگ سکیم کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ اس میں کسی انعامی رقم کا تذکرہ نہیں بلکہ ڈیلیوری کے لیے ایڈریس کی تصحیح کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ویزا کمپنی کی طرف سے متنبہ کیا جا چکا ہے کہ بعض صارفین ایسے پیغامات پر جلد یقین کر لیتے ہیں جن میں کسی چیز کی ڈیلیوری یا شپنگ کا ذکر ہو یا اس میں کوئی ڈسکاؤنٹ آفر شامل ہو۔