اسلام آباد: سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے مخصوص نشستوں پر تحریری حکم نامہ جاری کردیا ہے۔ الیکشن کمیشن فروری 2024 میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کرنے میں ناکام رہے۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ نے قرار دیا کہ الیکشن کمیشن کا یکم مارچ کا فیصلہ آئین کے خلاف ہے۔ تحریری فیصلہ 70 صفحات پر مشتمل ہے جسے جسٹس منصور علی شاہ نے تحریر کیا۔ سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں پر فیصلہ اردو میں جاری کرنے کا حکم بھی دیا۔
تفصیلی تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا، اور ریمارکس دئیے کہ الیکشن میں سب سے بڑا اسٹیک عوام کا ہے، انتخابی تنازعہ دیگر سول تنازعات سے الگ ہے۔ پارلیمانی جمہوریت میں اتنے آزاد امیدوار کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب نہیں ملا۔
تحریری فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے یہ دعویٰ مکیا کہ آزاد امیدوار بھی ان کے امیدوار تھے، ووٹرز نے ان کے پی ٹی آئی امیدوار ہونے کی وجہ سے ووٹ دئیے۔ الیکشن کمیشن ملک میں جمہوری عمل کا ضامن اور ریاست کے چوتھے ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔
فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو فروری 2024 میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کرنے میں ناکامی ہوئی۔ فیصلے میں 8ججز نے 2ججز کے اختلافی نوٹ پر تحفظات ظاہر کیے۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس نعیم اختر 12جولائی کے اکثریتی فیصلے کے خلاف تھے۔
دونوں سپریم کورٹ ججز نے 12 جولائی کے اکثریتی فیصلے کو آئین کے خلاف قرار دیا۔ سپریم کورٹ کے باقی ججز کا تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ جس انداز میں مذکورہ 2 ججز اکثریتی فیصلے پر اختلاف کا اظہار کرتے نظر آئے، وہ نامناسب اور ججز کے منصب کے منافی ہے۔
ماضی میں 12جولائی کو سپریم کورت کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تحریکِ انصاف کو مخصوص نشستوں کا حق دار قرار دے دیا تھا۔