مزید پڑھیں

حکومت اور اپوزیشن مولانا فضل الرحمٰن کو اتنی اہمیت کیوں دے رہے ہیں؟

وفاقی حکومت آئینی ترامیم کیلئے سرگرم نظر آتی ہے جبکہ اس دوران حکومت اور اپوزیشن مولانا فضل الرحمٰن کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) قومی اسمبلی میں 8 جبکہ سینیٹ میں صرف 5 اراکین کے بل پر اتنی طاقتور کیسے ہوگئی؟ آئینی ترامیم کے معاملے میں حکومت کو جے یو آئی اور پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت سے تعاون درکار ہے۔

وفاقی حکومت میں شامل مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن آئینی ترامیم پر ان کی حمایت کریں جبکہ تحریکِ انصاف نے بھی مولانا کو اپنے ساتھ ملانے کا سوچ لیا تاکہ حکومت کی مخالفت کی جاسکے۔

ایسے میں حکومتی اراکینِ پارلیمنٹ اور تحریکِ انصاف کے رہنما اتوار کے روز بار بار مولانا کے درِ دولت پر حاضری دیتے نظر آئے اور کتنے ہی اراکین نے مولانا فضل الرحمٰن کی امامت میں نماز بھی پڑھی، حالانکہ عام دنوں میں ان پر تنقید کی جاتی ہے۔

عموماً مولانا فضل الرحمٰن کو ن لیگی اور پیپلز پارٹی کے اراکین سمیت ہر سیاسی جماعت تنقید کا نشانہ بناتی ہے جو ایک سیاسی عمل ہے تاہم پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے تو حد کردی تھی جس میں کھلے عام مولانا کو فضلو کہہ کر پکارنا بھی شامل ہے۔

یہ انتہائی ہتک آمیز رویہ فضل الرحمٰن جیسے سینئر سیاست دان کیلئے اور عمران خان جیسے لیڈر کی جانب سے عوام کیلئے بھی باعثِ حیرت رہا، تاہم وقت نے وہ دن بھی دکھائے کہ آج عمران خان جیل میں ہیں اور مولانا فضل الرحمٰن پی ٹی آئی کیلئے بھی اہم ہوگئے۔

ملاقاتوں کے دوران مولانا کی جانب سے کسی سیاسی جماعت کو یہ یقین دہانی نہیں کرائی گئی کہ جے یو آئی کے اراکین ان کا ساتھ دیں گے۔ جے یو آئی رہنما حافظ حمد اللہ نے برطانوی میڈیا سے کہا کہ ہمارا مقصد پارلیمنٹ کو بااختیار بنانا ہے۔

یوں مولانا فضل الرحمٰن کی جماعت بظاہر اپوزیشن کا ساتھ دیتی نظر آتی ہے جس میں پی ٹی آئی بھی شامل ہے۔ مولانا حمد اللہ کا کہنا تھا کہ ہم طاقت پر نہیں، جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ ہم آئینی ترمیم کا مسودہ ملنے کے بعد غور کرکے ردِ عمل دیں گے۔