مزید پڑھیں

آئی سی 814 قندھار ہائی جیکنگ کی اصل کہانی

کہانی 25 سال پرانی لیکن حقیقت پر مبنی ہے. دسمبر کی ایک سرد رات منع کرنے کے باوجود انڈین طیارہ آئی سی 814، تقریبآ 176 مسافروں کے ساتھ پاک سرزمین پر لینڈ کرنے والا ہے۔ مسافروں کو الرٹ کیا گیا کہ وہ سیٹ بیلٹ باندھ لیں۔ پائلٹ نے لینڈنگ گیئر کھول دیے۔ طیارہ تیزی سے زمین کی طرف جانے لگا۔ لیکن یہ کیا؟

جیسے ہی پائلٹ کی نظر زمین پر پڑی۔ تو وہ حیران رہ گیا۔ کہ جہاں وہ آئی سی 814 اتارنے جا رہا ہے وہاں تو گاڑیاں چل رہی ہیں۔ کیونکہ یہ رن وے نہیں۔ بلکہ ہائی وے ہے۔ جی ہاں! یہ طیارہ لاہور کے ہائی وے پر گاڑیوں کے درمیان کریش لینڈنگ کرنے والا تھا۔

دوسری جانب انہی دنوں پاکستان ایک مرتبہ پھر مارشل لا کے شکنجے میں ہے۔ ابھی تو آرمی چیف کا آئی سی 814 ہائی جیک ہونے کی باز گشت بھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ٹھیک ڈھائی مہینے بعد لاہور کی فضاؤں میں ایک ہائی جیکڈ طیارہ چکر لگارہا ہے۔

جہاز میں صرف 10منٹ کی پرواز کا فیول باقی ہے۔ ایک انجن بند ہونے والا ہے۔ اور وہ ہر صورت لاہور ایئر پورٹ پر لینڈ کرنا چاہتا ہے۔ مگر پاکستانی حکام نے ایئر پورٹ کی ساری لائٹس بند کردیں تاکہ یہ جہاز پاکستان میں لینڈ نہ کر سکے۔

اب پائلٹ مایوس ہو گیا۔ اس کی نظریں نیچے لگ گئیں۔ اس نے ایک بار پھر لاہور ایئر پورٹ حکام سے کہا لینڈنگ کی اجازت دیں۔ ورنہ مجبوراً ہائی وے پر کریش لینڈنگ کرنا پڑے گی۔ یہ سُن کر پاکستانی حکام نے لاہور ایئر پورٹ کی لائٹس آن کر دیں اور جہاز کو لاہور میں لینڈنگ کی اجازت مل گئی۔

آئی سی 814 انڈین ایئرلائن کا یہ طیارہ لاہور ایئر پورٹ پر کھڑا تھا۔ ‏176 مسافروں کو زندہ بچنے کی بہت زیادہ خوشی نہیں تھی۔ کیونکہ وہ سیفلی لینڈ تو کر گئے تھے مگر موت کا خوف اب بھی اُن کے سامنے تھا۔ نہیں پتہ کہ ہائی جیکر کب کس کی جان لے لیں؟ اب تو اُن کا جہاز بھی “دشمن ملک” میں کھڑا تھا۔

آخر ایسا کیوں ہوا؟ بھارتی سرکار اور اُن کی سیکورٹی فورسز کی نااہلی کی وجہ سے۔ کیونکہ بھارت کو ہائی جیکرز سے آئی سی 814 طیارہ چُھڑانے کا موقع تو ملا تھا لیکن۔ گنوا دیا! ہوسکتا ہے آپ نے یہ کہانی سُن رکھی ہو، مجھے یقین ہے ضرور بھارت کی زبانی سنی ہوگی لیکن آج پاکستان کی طرف سے سنیں گے۔ سَچی کہانی۔

آئی سی 814 ہائی جیک پلاننگ

ڈھاکہ کے علاقے سبزی منڈی میں پانچ لوگوں کی ایک میٹنگ چل رہی ہے۔ یہ ہیں ابراہیم اطہر، سنی احمد، شاکر، سعید اختر اور ظہور مستری۔ ابراہیم اطہر کہتا ہے کہ نیپال کے کٹھمنڈو ایئر پورٹ پر بہت زیادہ سختی نہیں، انڈینز کو آئی ڈی کارڈ یا ڈرائیونگ لائسنس دیکھ کر جانے دیا جاتا ہے۔

یہ سن کر پانچوں نے ہاتھ پر ہاتھ رکھے اور پلان لاک ہو گیا۔ دنیا بھر میں کرسمس کی تیاریاں چل رہی تھیں۔ تب ان ہائی جیکرز نے کٹھمنڈو سے دلی جانے والی فلائٹ کے دو بزنس کلاس اور تین ایگزیکٹیو کلاس کے ٹکٹ خرید لیے۔

پلان کے مطابق پہلے ابراہیم عرف چیف کو انٹر کروانا تھا کیونکہ اُسی کے پاس اسلحہ اور دستی بم تھے۔ سیکیورٹی بوتھ پر بغیر کسی چیکنگ سے گزرنے کے بعد وہ باقی ساتھیوں کو گرین سگنل دیتا ہے۔ یہاں کٹھمنڈو ایئر پورٹ سیکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے کہ کون اِن اغوا کاروں کے ساتھ ملا ہوا تھا؟

بہرحال، جہاز میں سوار ہونے سے پہلے ابراہیم نے ویپنز تمام ساتھیوں میں بانٹ دیے۔ اور پلان یہ تھا کہ کوئی کسی کو اصل نام سے نہیں بلائے گا۔ اسی لیے مستری بن گیا بھولا، سنی احمد برگر، ابراہیم اطہر چیف، سعید اختر ڈاکٹر اور شاکر بن گیا شنکر۔

‏پھر 24 دسمبر 1999 شام چار بجے۔ جہاز اڑان بھرتا ہے۔ ویسے تو یہ سفر دو گھنٹے کا تھا۔ مگر کسی مسافر کو نہیں معلوم تھا کہ اگلے آٹھ دن اِس طیارے میں گزارنے والے ہیں۔ بہرحال، اڑان بھرنے کے ٹھیک پچیس منٹ بعد جب طیارے میں مسافروں کو کھانا دیا جا رہا تھا،

چیف اٹینڈنٹ انیل شرما جیسے ہی کاک پٹ سے باہر نکلے۔ تو اُن کے سامنے پانچ فٹ لمبا، گرے سوٹ میں ماسک لگائے ایک ہائی جیکر کھڑا تھا جس کے ایک ہاتھ میں پستول اور دوسرے میں گرینیڈ تھا۔ ہائی جیکر نے اسے دھکا دے کر واپس کاک پٹ میں دھکیل دیا۔ باقی چاروں ہائی جیکرز نے ایگزیکٹو اور بزنس کلاسز میں اپنی اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ کاک پٹ میں چیف نے پائلٹ کے سر پر پستول رکھتے ہوئے کہا:

طیارے کو ویسٹ کی طرف لے کر جاؤ! یہ طیارہ دلی نہیں، لاہور میں اترے گا۔ پائلٹ دیوی شرن نے جواب دیا کہ جہاز میں اتنا فیول نہیں کہ لاہور جا سکیں۔ ابراہیم چیف نے پوچھا کہ پھر کہاں لے جا سکتے ہو؟ پائلٹ نے جواب دیا کہ ممبئی۔ ابراہیم نے ایک زناٹے دار تھپڑ پائلٹ کے رسید کیا:

ہمیں بے وقوف سمجھتا ہے؟ سیدھا جہاز کو لاہور لے چلو۔ ہوشیاری دکھائی تو ایک، ایک کر کے سارے پیسنجر مار دوں گا! اصل میں ابراہیم چیف جانتا تھا کہ دلّی سے ممبئی کا فاصلہ لاہور سے کہیں زیادہ ہے۔

اب کیپٹن شرن مجبور ہیں، وہ کسی نہ کسی طرح کنٹرول ٹاور کو ایک کوڈ بھیج دیتے ہیں: 7500۔ اب اے ٹی سی جان چکا ہے کہ فلائٹ آئی سی 814 ہائی جیک ہو چکی ہے۔ وقت ہو رہا تھا شام کے 4 بج کر 40 منٹ مگر وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی ایک گھنٹے تک اس خبر سے لا علم رہے۔

بہرحال! طیارہ تیزی سے پاکستان کی جانب بڑھ رہا تھا۔ کیپٹن دیوی شرن پاکستانی حکام سے فضائی حدود میں داخل ہونے کی اجازت مانگتے ہیں، مگر پاکستان کی طرف سے صاف منع کر دیا جاتا ہے۔ کیپٹن دیوی شرن ہائی جیکر کو سمجھاتے ہیں کہ پاکستان انٹری کی اجازت نہیں دے رہا اور جہاز میں صرف 10 منٹ کا فیول باقی ہے اس لیے جہاز کو امرتسر میں لینڈ کرتے ہیں، ری فیولنگ کے بعد آپ جہاں بولیں گے، جہاز کو وہاں لے جائیں گے۔ ہائی جیکر مان جاتے ہیں۔

ٹھیک شام سات بجے آئی سی 814 امرتسر ایئر پورٹ پر لینڈ کر جاتا ہے۔ ہائی جیکر پائلٹ سے کہتے ہیں کہ فوراً ری فیولنگ کرواؤ اور ٹیک آف کرو۔ اب یہ انڈین سیکیورٹی فورسز کے پاس گولڈن چانس تھا کیونکہ انڈین جہاز اب بھارت میں ہی لیںڈ کر چکا تھا لیکن کیا بھارتی فورسز اتنی اہل تھیں کہ موقع سے فائدہ اٹھا لیتیں؟ بالکل نہیں! اب آپ نااہلیاں گنتے جائیے۔

ایک ہائی جیکڈ انڈین پنجاب میں طیارہ کھڑا ہے اور پنجاب پولیس کے سربراہ سر بجیت سنگھ اس بات سے بے خبر ہیں۔ انہیں چھ بجے ٹی وی دیکھ کر اس ہائی جیکنگ کا پتہ چلا۔ جہاز میں ایک طرف ہائی جیکرز پائلٹ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ فوراً ری فیول کرواؤ، اور اُدھر بھارتی فورسز پلان کر رہے تھے کہ جتنی تاخیر کر سکتے ہیں کریں، تاکہ اچھا پلان بنا کر ختم کر سکیں۔

ایک پلان پیش کیا جاتا ہے کہ ٹینکر میں فیول کے بجائے جوان چھپ کر جائیں۔ اور پلین کے ٹائر پنکچر کر دیں، یوں وہ ٹیک آف ہی نہیں کر سکے۔ دوسرا آفیسر کہتا ہے نہیں۔ فیول ٹینک کو طیارے کے قریب لے جا کر بالکل سامنے کھڑا کر دیتے ہیں۔ کیا کرنا ہے؟ اور کیا نہیں؟ اسی پلاننگ میں پندرہ منٹ گزر جاتے ہیں۔ اور ہائی جیکرز بھانپ جاتے ہیں کہ کچھ گڑبڑ ہے۔

وہ سات پیسنجر کو جہاز کے اگلے حصے میں لاتے ہیں اور دو کو چھریاں مار کر زخمی بھی کر دیتے ہیں۔ اس کے بعد کاک پٹ میں آ کر پائلٹ کو بتاتے ہیں کہ انہوں نے تین لوگوں کو مار دیا ہے، فوری ری فیولنگ نہ ہوئی تو مزید لوگوں کی جان جائے گی۔

جہاز کو آئے ہوئے پون گھنٹہ گزر چکا تھا، جب 7:45 پر ری فیولنگ ٹینکر نکلتا ہے لیکن انڈین فورسز کو لگتا ہے کہ ٹینکر ڈرائیور بہت تیز چلا رہا ہے۔ اگر اتنی ہی رفتار سے بڑھتا رہا تو جہاز تک جلد پہنچ جائے گا اور فورسز کو ایکشن کے لیے کم وقت ملے گا۔

اس لیے ڈرائیور کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں کہ وہ تھوڑا سلو ڈرائیو کرے لیکن یہاں مس کمیونیکیشن ہو جاتی ہے۔ ڈرائیور کو لگتا ہے کہ اسے رکنے کا حکم دیا جا رہا ہے، وہ بریک لگا لیتا ہے۔ اب جس جگہ وہ بریک لگاتا ہے کہ وہ ایگزیکٹ جہاز کے بالکل سامنے تھی۔ یہ دیکھ کر ہائی جیکرز پریشان ہو جاتے ہیں کہ ٹینکر رک کیوں گیا؟ ضرور یہ کوئی چال ہے! ابراہیم چیف پائلٹ پر چیختا ہے، ’’فوراً جہاز اڑاؤ!‘‘ وہ کہتا ہے کہ ابھی ری فیولنگ نہیں ہوئی۔ ہائی جیکر کہتا ہے:

بہت ہوگئی ری فیولنگ۔ فوراً جہاز اڑاؤ ورنہ ہم سب کو مار دیں گے۔ بھلے سامنے کھڑے ٹینکر کو بھی اڑا دو مگر جہاز فوراً اڑاؤ۔ یوں 7 بجکر 49 منٹ پر کیپٹن دیوی شرن طیارے کو رن وے پر دوڑاتے ہیں۔ اس دوران جہاز فیول ٹینکر سے ٹکراتے بال بال بچتا ہے۔ یہاں کیپٹن دیوی شرن اے ٹی سی کو میسج بھیجتے ہیں:

یوں بھارت نے ہاتھ آیا موقع گنوا دیا مگر اس سچویشن پر مجھے پاکستان کا وہ جہاز یاد آگیا جب ہائی جیکرز پی آئی اے کا جہاز اغوا کر کے انڈیا لے جانا چاہتے تھے۔ مگر پائلٹ کیپٹن عزیر خان نے بڑی ہی چالاکی سے حیدرآباد ایئر پورٹ کو انڈیا کا بھوج ایئر پورٹ بتا کر طیارہ پاکستان میں ہی لینڈ کرا دیا تھا۔ اور پھر سیکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے ہائی جیکرز کو ٹھکانے لگا دیا تھا۔

یہ واقعہ بھارتی طیارے کے ہائی جیک سے بس ایک سال پہلے کا ہی تھا، ‏24 مئی 1998 کا۔ آخر انڈین طیارے کو ہائی جیکرز سے چھڑانے کے لیے امرتسر ایئر پورٹ پر فورسز نے کیوں کارروائی نہ کی؟ یہ بھی ایک بڑی خبر ہے۔

اصل میں بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے سیکریٹری تھے نند کشور سنگھ۔ اُن کے سالے اور را کے ایجنٹ ششی بھوشن سنگھ تومار انہی پیسنجرز میں شامل تھے۔ اور صرف تومار کی وجہ سے سیکریٹری نند کشور نے کارروائی سے منع کر دیا تھا۔

خیر! واپس جہاز کی طرف چلتے ہیں جو اب دوبارہ فضا میں ہے اور ہائی جیکرز اسے پاکستان لے جانا چاہتے ہیں مگر ری فیولنگ نہ ہونے کی وجہ سے طیارے میں فیول بہت کم رہ گیا ہے۔ کیپٹن دیوی شرن لاہور ایئر پورٹ پر رابطہ کر کے کہتے ہیں کہ ان کے پاس فیول بالکل نہیں ہے اور ہائی جیکرز کا مطالبہ ہے کہ جہاز لاہور لایا جائے۔ لیکن پاکستان ایئر ٹریفک کنٹرول نے ایک مرتبہ پھر صاف جواب دے دیا۔ مگر اجازت کے بغیر بھی جہاز فضائی حدود میں داخل ہو گیا۔ اس پر لاہور ایئر پورٹ کی لائٹس بند کر دی گئیں۔

جیسا کہ ہم نے شروع میں بتایا کہ کیپٹن دیوی شرن کنفیوز ہو کر ہائی وے پر لینڈ کرنے جا رہے تھے، جس پر پاکستانی حکام نے مجبور ہو کر جہاز کو اترنے کی اجازت دے دی۔ بالآخر فلائٹ آئی سی 814 لاہور پہنچ گئی!

یہاں ری فیولنگ تو کر دی جاتی ہے۔ لیکن ساتھ ہی ہائی جیکرز کو منانے کی کوشش بھی ہوتی ہے کہ جہاز سے عورتوں اور بچوں کو اتار دیا جائے، مگر ہائی جیکر کچھ ماننے کو تیار نہیں تھے۔ ان سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد میں انڈین ہائی کمشنر بھی لاہور روانہ ہوتے ہیں لیکن ان کے پہنچنے سے پہلے ہی جہاز ری فیولنگ کے بعد پھر فضا میں تھا۔

ہائی جیکر جہاز کو کابل میں لینڈ کروانا چاہتے تھے۔ لیکن اُس وقت وہاں نائٹ لینڈنگ کی سہولیات نہیں تھیں۔ اب پائلٹ کو عمان کی طرف جانے کا کہا جاتا ہے، وہاں لینڈ کرنے کی اجازت نہیں ملتی۔ اور پھر بد قسمت جہاز کی منزل بنتی ہے دبئی کی المنہاد ایئر بیس۔

جی ہاں! جہاز اب تک تین جگہ اتر چکا تھا۔ مطلب تین چانسز ملے، لیکن انڈینز ایک چانس بھی اویل نہیں کر سکے۔ بہرحال، دبئی میں انڈین آفیشلز کچھ مسافروں کو رہا کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ مگر ہائی جیکرز کا کہنا تھا کہ پہلے اُن کی ڈیمانڈز مانیں، پھر!

وہ ڈیمانڈز کیا تھیں؟ یہ آپ کو وڈیو میں آگے چل کر بتائیں گے فی الحال یہاں سکھ کا پہلا سانس ضرور ملتا ہے، ہائی جیکرز 26 مسافروں کو رہا کر دیتے ہیں۔ لیکن اب جہاز کو ہائی جیک ہوئے ایک دن گزر چکا تھا۔ کھانے پینے کی چیزیں کم ہونے لگی تھیں، ٹوائلٹس کی کنڈیشن تو بہت ہی خراب ہو گئی تھی اور اسی حال میں ہائی جیکرز جہاز کو ایک مرتبہ پھر اڑنے کا حکم دیتے ہیں۔

یوں یہ بد قسمت طیارہ 26 دسمبر کی صبح آٹھ بجے لینڈ کرتا ہے۔ قندھار ایئر پورٹ پر۔ یہاں جہاز کو سب مشین گنز اور رائفلیں اٹھائے طالبان گھیر لیتے ہیں۔ جی ہاں! اس وقت افغانستان میں طالبان کی حکومت تھی۔ اب چلتے ہیں ہائی جیکرز کی ڈیمانڈ کی طرف، جنہیں سمجھنے کے لیے ہمیں دس سال پیچھے جانا ہوگا۔

یہ 8 دسمبر 1989 ہے۔ بھارت کے ایک یونین منسٹر مفتی محمد سعید کی بیٹی روبیہ سعید کو اغوا کر لیا جاتا ہے۔ اور بھارتی قید میں موجود حامد شیخ سمیت کئی افراد کو ریلیز کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ حکومت یہ مطالبہ مان لیتی ہے۔ طے ہو جاتا ہے کہ اغوا کے ذریعے کوئی بھی اپنے مطالبات منوا سکتا ہے۔ اور دس سال بعد ہائی جیکرز بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔

وہ اس جہاز کو اغوا کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں 30 لوگوں کی رہائی، اور 200 ملین ڈالر کا۔ یہ ڈیمانڈز میں بعد کم ہو کر صرف تین لوگوں کی رہائی تک آ جاتی ہیں۔ ان میں سب سے بڑا نام تھا، مولانا مسعود اظہر۔ دوسرا احمد عمر سیعد شیخ اور تیسرا مشتاق زرگار جسے انڈین فورسز نے 1992 میں سری نگر سے گرفتار کیا تھا۔

جبکہ مولانا مسعود اظہر فروری 1994 میں مختلف تنظیموں کے آپسی جھگڑے نمٹانے کے لیے بنگلہ دیش سے کشمیر آئے تھے، مگر یہاں بھارتی فورسز کے ہاتھوں گرفتار ہو گئے۔ اسی سال عمر سعید شیخ کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور دونوں کو دلّی کی بد نامِ زمانہ تہاڑ جیل میں قید کر دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ 1999 کے یہ آخری دن آ جاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ انہی دنوں میں مسعود اظہر نے بھارتی پولیس سے کہا تھا، ’’آپ مجھے زیادہ دیر جیل میں نہیں رکھ پائیں گے‘‘۔ پھر آئی سی 814 کے ہائی جیک ہونے کی خبر دنیا دیکھتی ہے۔ اور پھر مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ سامنے آ جاتا ہے۔

جب 26 دسمبر کو فارن منسٹر جسونت سنگھ پریس کانفرنس کرتے ہیں تو مسافروں کے رشتہ دار ان پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ وہ شور مچاتے ہیں کہ ہائی جیکرز کی ڈیمانڈ فوراً پوری کی جائیں، جیسے 1989 میں یونین منسٹر کی بیٹی کی جان بچانے کے لیے ڈیمانڈ مانی گئی تھیں، ویسے ہی عام لوگوں کی جان بھی بچائی جائے۔ پریس کانفرنس روک دی جاتی ہے۔

قندھار میں کھڑے جہاز کو جتنے دن گزرتے جاتے ہیں، بھارتی سرکار پر عوام کا بھی دباؤ بڑھتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ پی ایم ہاؤس بھی پہنچ جاتے ہیں۔ تب بھارتی حکومت اجیت ڈوول کو مذاکرات کے لیے قندھار بھیجتی ہے۔ جی ہاں! وہی اجیت ڈوول جو آج کل انڈیا کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر ہیں۔

ویسے انڈین گورنمنٹ طالبان کی حکومت کو مانتی تو نہیں تھی، لیکن اب طالبان سے ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ہائی جیکرز کے خلاف ایکشن لیا جائے اور مسافروں کو رہا کروایا جائے۔ بہرحال، طالبان کا تعاون مسافروں کی دیکھ بھال سے آگے نہیں گیا۔ بلکہ پہلے دن تو انہوں نے مسافروں کو کھانے میں چکن بھجوا دی۔ مگر زیادہ تر مسافر شاکا ہاری یعنی سبزی خور تھے۔ انہوں نے گوشت کھانے سے انکار کر دیا۔ بہرحال، وقت گزرتا چلا گیا۔ اور معاملہ خراب ہوتا گیا۔

جہاز کو قندھار میں چھ دن گزر گئے۔ یہ انڈیا کی تاریخ کا سب سے طویل ہائی جیک بن گیا! اور اس سے پہلے کہ حالات مزید خراب ہوتے۔ بھارتی حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔ مسعود اظہر اور ان کے ساتھیوں کو ریلیز کر دیا گیا اور ایک اسپیشل فلائٹ کے ذریعے قندھار پہنچا دیا گیا۔ ہائی جیکرز جہاز سے اترے اور رہائی پانے والوں کے ساتھ نامعلوم مقام پر چلے گئے۔

کٹھمنڈو سے سوار ہونے والے مسافر آٹھ دن بعد طیارے سے باہر نکلتے ہیں۔ اس جہاز میں ایک نئی نویلی دلہن بھی سوار ہوئی تھی جو بیوہ ہو کر اتر رہی تھی۔ کیونکہ اس کے شوہر روپن کتیال زیادہ خون بہنے سے دم توڑ گئے تھے۔

اس ہائی جیک کو بھارت کی بڑی فوجی اور سفارتی ناکامی سمجھا گیا۔ کیونکہ نہ انڈیا خود کوئی کارروائی کر سکا۔ نہ دوسرے ممالک کو ایکشن لینے کے لیے قائل کر پایا۔

بائی جیک کے بعد پانچ مہینے تک انڈیا نے نیپال کے لیے اپنا فلائٹ آپریشن بند رکھا۔ جب تک نیپال نے سیکیورٹی کی یقین دہانی نہیں کروائی اور ایکسرے مشین نصب نہیں کی، انڈیا نے فلائٹ آپریشن شروع نہیں کیا۔

ویسے ہائی جیک ہونے والا بد قسمت جہاز بھی زیادہ دیر اڑ نہیں سکا۔ دو سال بعد ہی اسے ناکارہ قرار دے دیا گیا۔ لیکن کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس ہائی جیک کی کہانی سے کئی داستانوں نے جنم لیا۔ ان میں سے ایک یہ ہے۔

ہائی جیک کے خاتمے کے ایک ہفتے بعد کراچی کے ارشد صاحب جمعہ پڑھنے طارق روڈ کی ایک مسجد گئے۔ اچانک ہٹو بچو کے شور میں ایک کالا ڈالا آ کر رکتا ہے۔ گارڈز کے درمیان ایک مولانا صاحب منبر کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جمعہ کی نماز انہوں نے ہی پڑھانی تھی۔ جب ارشد نے مولانا صاحب کی طرف دیکھا تو حیران رہ گیا۔ وہ کوئی اور نہیں، بھارت سے رہائی پا کر آنے والے مسعود اظہر ہی تھے۔

سال 2000 میں انہوں نے ’’جیشِ محمد‘‘ بنائی۔ ‏2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، 2008 میں ممبئی حملے اور 2019 میں پلوامہ حملے، ان سب کا ذمہ دار مولانا مسعود اظہر ہی کو ٹھیرایا جاتا ہے۔

ویسے رہائی پانے والے دوسرے شخص عمر سعید شیخ کی کہانی تو ایسی ہے کہ اس پر الگ کہانی لکھنا پڑے گی۔ مختصر یہ کہ اس ہائی جیک سے رہائی پانے کے تین سال بعد وہ دنیا بھر کی خبروں میں آ گئے۔ ‏

سال 2002 میں امریکن جرنلسٹ ڈینیل پرل کے قتل اور اغوا کے الزام میں بعد میں گرفتار ہوئے۔ انہیں سزائے موت سنائی گئی مگر تین سال پہلے سندھ ہائی کورٹ نے ان کی سزا کالعدم قرار دے دی۔ اب وہ بیس سال قید میں کاٹ چکے ہیں اور رہائی میں صرف 4 سال رہ گئے ہیں۔

تیسرے شخص مشتاق زرگر کا کیا ہوا؟ انڈیا کے ہاتھ اب تک ان کا صرف ایک پرانا گھر ہی آ سکا ہے، وہ بھی چوبیس سال بعد۔ پچھلے ہی سال انڈیا نے مقبوضہ کشمیر میں ایک گھر کو ضبط کر لیا اور نوٹس لگا دیا کہ یہ مشتاق زرگر کا آبائی گھر ہے۔ اس وقت وہ خود کہاں ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم۔