مزید پڑھیں

وہ عدالتی فیصلہ جس نے عمران خان کی زندگی بدل دی

برطانیہ: دنیا کے سب سے بڑے شہر لندن کے ہائی کورٹ کی تیرہ نمبر عدالت میں اکتیس جولائی کے دن عدالت میں مکمل خاموشی چھائی تھی۔ پچھلے کئی گھنٹوں سے لوگ وہاں بیٹھے جیوری کے اہم فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ کیس کرنے والے دونوں مدعی اپنی بیویوں سمیت پرسکون بیٹھے ہیں۔ جیسے توقع ہوکہ ابھی جیوری حق میں فیصلہ سنائے گی اور وہ جیت جائیں گے۔

کورٹ روم میں دوسری طرف لمبے سمارٹ جسم والا سابق پاکستانی کرکٹر سوٹ میں ملبوس اپنی دلکش انگلش بیوی کے ساتھ بیٹھا ہے، اس کے چہرے پر مایوسی اور پریشانی جھلک رہی اور وہ سوچوں میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کا سینئر وکیل جھک کر سرگوشی میں اسے تسلی دیتا اور وہ کاغذات دکھاتا ہے جو اس نے ابھی سے اپیل کے لئے تیار کرنے شروع کر دئیے ۔

اچانک اس کے ایک دوست نے آ کر کان میں کچھ کہا،شائد کسی کا اہم فون تھا۔ پاکستانی کرکٹر اٹھ کرباہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ واپس آیا، مگر اب اس کے چہرے پر پریشانی کے بجائے اطمینان اور سکون دکھائی دے رہا۔ نجانے فون پر کس سے بات ہوئی، کیا خبر سنائی گئی تھی؟

کچھ دیر پہلے جیوری اراکین نے آ کر جج کو بتایا کہ متفقہ فیصلہ دینا ممکن نہیں۔ جج نے انہیں بتایا کہ جیوری بارہ ارکان پر مشتمل ہے، ترجیح متفقہ فیصلہ کی ہوگی، ورنہ پھر گیارہ ایک یا دس دو(10-2) کے تناسب سے قابل قبول ہوگا، اس سے کم نہیں۔ جیوری واپس اپنے مخصوص کمرے میں فیصلے پر بحث کرنے کے لئے چلی گئی ، تین گھنٹے مزیدگزر چکے تھے۔

اچانک جیوری کے افراد کمرے میں داخل ہو کر اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ جیوری کا سربراہ (فورمین)کھڑا ہوا۔اس نے ایک لمحے کو حاضرین پر نظر دوڑائی اور پھر اپنی سرد غیر جذباتی آواز میں فیصلے کااعلان کر دیا۔ یہ فیصلہ گویا بم شیل تھا، ایک دھماکے کی طرح ہر ایک کے اعصاب پر گونجا۔ دونوں فریقین حیرت سے اچھل گئے، انہوں نے جج کی طرف اور اپنے مخالف کی طرف دیکھا۔

جیوری نے دس دو سے پاکستانی کھلاڑی کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے اسے دونوں کیسز کے الزامات سے بری کر دیا تھا۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ تیرہ روزہ عدالتی کیس کے تمام تر عدالتی اخراجات سمیت ہرجانہ وغیرہ یعنی تین سے پانچ لاکھ پاونڈز کے قریب اب لیمب اور بوتھم کو ادا کرنے پڑیں گے ۔

یہ وہ فیصلہ تھا جس نے سابق پاکستانی کپتان عمران خان کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ یہ فیصلہ اگر ا سکے خلاف جاتا تو شائد وہ بری طرح ڈسٹرب ہوتا،ایک طرح سے وہ دیوالیہ ہوجاتا۔اس کا اعتماد بری طرح لرز جاتا اور پھر وہ واپس آ کر پاکستان میں اپنے سیاسی سفر کو اس طرح شائد جاری نہ رکھ پاتا۔

ممکن ہے اسے اپنے اگلے برس برطانیہ ہی میں گزارنے پڑتے۔ اخبارات کے لئے کالم لکھنے اور کرکٹ کمنٹری کی مصروفیت میں۔ آج اسی کیس کی بات کرتے ہیں، مگر ہم اپنا تبصرہ کئے بغیر صرف غیر جانبداری سے رپورٹ کریں گے یااس بارے میں دونوں فریقین نے جو کچھ لکھا، صرف وہی۔

کیس کا مختصر خلاصہ

یہ کیس پندرہ جولائی 1996کو شروع ہوا، سابق برطانوی کرکٹرز ایل لیمب اور آئن بوتھم نے عمران خان پر ہرجانے کے دو الگ الگ کیسز کئے تھے۔ لیمب اور بوتھم کا مشترکہ دعویٰ تھا کہ عمران خان نے مئی 1994میں بھارتی جریدے انڈیا ٹوڈے کو انٹرویو دیتے ہوئے انہیں نسل پرست (ریسسٹ) کہا تھا جبکہ یہ بھی کہا کہ ایلن، لیمب ، ٹرومین جیسے لوگ لوئر کلاس سے ہیں، کلاس اور پرورش بہت فرق ڈالتی ہے۔

بوتھم نے دوسرے کیس میں یہ الزام لگایا کہ عمران خان نے اس پر بال ٹمپرنگ کا الزام لگایا جو کہ غلط ہے۔ عمران خان کا پہلے کیس کے جواب میں موقف یہ تھا کہ اسے مس کوٹ کیا گیا اور اس نے لیمب، بوتھم کو نسل پرست اور لوئر کلاس کا کہا ہی نہیں۔ جبکہ اس نے یہ بھی کہا کہ جب بوتھم وغیرہ نے اس پر بال ٹمپرنگ اور چیٹنگ کا الزام لگایا تو اس نے جواب میں یہ کہا تھا کہ بال ٹمپرنگ ہمیشہ سے فاسٹ باولرز کرتے آئے ہیں اور یہ کوئی ایسی غلط یا غیر قانونی بات نہیں، اسی تناظر میں بوتھم کا ذکر بھی آیا۔

عدالتی کارروائی

یہ برطانوی بلکہ کرکٹ ہسٹری کا سب سے بڑا اور اہم ہتک عزت کیس تھا جس میں دونوں طرف سے تین عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی انوالو تھے اور گواہی دینے کے لئے بھی کئی نامور کھلاڑی عدالت آئے۔ عمران خان کی طرف سے لیجنڈری برطانوی بلے باز جیف بائیکاٹ نے بھی گواہی دی، بائیکاٹ کا کہنا تھا کہ ٹمپرنگ ہمیشہ ہوتی آئی ہے اور یہ فطری بات ہے۔

ایلن لیمب کا موقف

ایلن لیمب نے اپنی کتاب میں ایک پورا باب اس کیس پر لکھا۔ لیمب نے بتایا کہ عمران خان کے سسر کے ایک دوست نے ان سے رابطہ کر کے انہیں کیس سیٹل کرنے کا مشورہ دیا اور اب تک کے دفتری اخراجات اٹھانے کی پیش کش بھی کی ۔ لیمب اور بوتھم کا اصرار تھا کہ عمران خان اپنا الزام واپس لے اور باضابطہ معذرت کرے۔( عمران خان اس کے لئے تیار نہیں ہوا۔

اس کا کہنا تھا کہ میں نے یہ کہا ہی نہیں تو معذرت کاہے کی۔ )لیمب کے بقول وہ چاہتے تھے کہ الزام واپس لینے کے ساتھ کچھ مناسب ہرجانہ دیا جائے تو وہ عدالت سے باہر سیٹل کر لیں گے، مگر عمران کے وکیل نے واضح کر دیا کہ اس حوالے سے وہ پانچ پاونڈ دینے کے لئے بھی تیار نہیں۔

لیمب نے بائیکاٹ پر طنزیہ جملے لکھے کہ اسے کوٹ پہننا یاد نہیں رہا، مگر وہ ولز کپ کے لوگو والی شرٹ پہن کر آیا اور مخصوص سپورٹس برانڈ کے جوگرز لے آیاتاکہ ان کی تصاویر بنیں اور پبلسٹی ہو۔برطانوی کپتان مائیک ایتھرٹن نے بھی گواہی دی، ایتھرٹن کے مطابق بال ٹمپرنگ یعنی بال سے چھیڑ چھاڑ کی ایک حد تک قانونی اجازت ہونی چاہیے ۔

ڈیوڈ لائیڈ ، ڈیرک پرنگل ، ٹونی لیوس بھی عمران کے گواہان میں سے تھے ۔ لیمب کی جانب سے گواہان میں ڈیوڈ گاور، رابن سمتھ، برائن کلوز، گلیڈ سٹون سمال،جان ایمبری وغیرہ شامل تھے۔ لیمب کے بقول یہ سب رضاکارانہ طور پر گواہی دینے آئے، جبکہ عمران کے گواہان کو عدالت نے سمن کیا۔

ایلن لیمب نے اپنی کتاب میں مقدمے کا تفصیل سے ذکرکرتے ہوئے لکھا ہے کہ اسے فیصلے پر شدید حیرت ہوئی اور کچھ دیر تک وہ شل بیٹھا رہا، اپنی بیوی کا ہاتھ تھامے بس چھت کو تکتا رہا کہ شائد وہ بھی سرپر نہ آ پڑے۔ ایلن لیمب کے مطابق اس کیس سے پہلے بھی انہیں وکلا نے یہی بتایا تھا کہ نوے فیصد امکانات جیتنے کے ہیں۔ کیس کے دوران بھی صورتحال ایسی تھی کہ وہ جیت یقینی سمجھ رہے تھے۔

اس لئے بھی کہ عمران خان اور ان کا وکیل ایک طرح سے ہاتھ پاﺅں چھوڑ گئے تھے۔ انکے چہرے پر شدید مایوسی تھی اور وہ شکست یقینی سمجھ رہے تھے۔ اپنی کتاب میں لیمب نے اصرار سے لکھا کہ وہ صرف اپنے اوپر لگے الزامات کلیئر کرانے کے لئے یہ کیس لڑ رہا تھا، پیسوں کے لئے نہیں۔

عمران خان کا مؤقف

عمران خان نے اپنی انگریزی بائیوگرافی جس کا اردو ترجمہ”میں اور میرا پاکستان“ 2013 کے پاکستانی انتخابات سے پہلے شائع ہوا، اس میں اس کیس پر دو صفحات لکھے۔( صفحہ 184پر) عمران لکھتے ہیں کہ مجھے مجبوراً کیس کا سامنا کرنا پڑاتھا۔

میرے وکیل نے مجھے بتایا کہ دس فیصد سے زیادہ امکانات جیتنے کے نہیں کیونکہ بوتھم مقبول کرکٹر اور برطانوی ہیرو ہے۔ہار جانے کی صورت میں بھاری رقم سے ہاتھ دھونے پڑیں گے، بہتر ہوگا کہ عدالت سے باہر تصفیہ کر لیا جائے۔

عمران کے بقول،” آغاز میں بہت پراعتماد تھا اور میں نے وکیل کی رائے ماننے سے انکار کر دیا۔مجھے یقین تھا کہ میں بے گناہ ہوں۔ کارروائی آگے بڑھی تو محسوس ہوا کہ حالات میرے خلاف ہیں۔ اب مجھے فکر ہونے لگی۔ مقدمہ ہارا تو دیوالیہ ہوجاﺅں گا۔ خاندان کی کفالت کیسے کروں گا؟اس سے بڑی ذلت کی بات کیا ہوگی کہ ادھار لوں یا بیوی کے پیسوں پر زندہ رہوں ۔

یہ میری نوتشکیل پارٹی کے لئے بھی بڑا دھچکا ہوتا جسے بنے ہوئے صرف دو ماہ ہوئے تھے۔ آدھی کارروائی مکمل ہوگئی تھی جب میں نے فون کرکے میاں بشیر کو فون کیا اور دعا کی درخواست کی۔ وہ مایوس تھے، انہوں نے کہا، ”جج تمہارے خلاف ہے“۔بات تھی بھی درست۔ جب کیس کی کارروائی ختم ہونے کو تھی تو میرے وکیل نے جیوری کو باہر بھیجنے کی درخواست کرکے جج سے شکوہ کیا کہ اپنے چالیس سالہ قانونی کیئرئر میں پہلی مرتبہ شکوہ کررہا ہوں کہ آپ نے مقدمے کی کارروائی سمیٹتے ہوئے میرے موکل کے ساتھ تعصب برتا ہے۔ “(عمران خان نے کتاب میں تو ذکر نہیں کیا، مگر بعدمیں اپنے ایک صحافی دوست کو بتایا کہ میاں بشیر کے روحانی جائزہ کے مطابق جیوری کے ارکان کی اکثریت میرے خلاف مائنڈ بنا چکی ہے۔)

خان کے حق میں حیران کن فیصلہ

عمران خان کے مطابق ”کرکٹ کیرئر کے درمیان بے شمار بار شدید تناﺅ سے گزرا، مگر جیوری کے فیصلے کے انتظار میں پانچ چھ گھنٹے مجھ پر سب سے بھاری تھے۔ وکیل مجھے شکست کے لئے ذہنی طور پر تیار کر رہا تھا، اس نے اپیل کے لئے کاغذات بھی تیار کرنے شروع کر دئیے۔ اس دوران مجھے اپنے دوست کا پیغام ملا کہ میاں بشیر بات کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے باہر جا کر انہیں فون کیا تو وہ بہت خوش تھے، انہوں نے کہا، ”اللہ جیوری کے خیالات بدل رہا ہے“ ۔آخرکار اسی جیوری نے 10-2کی اکثریت سے میرے حق میں فیصلہ دیا۔ “

یہ میاں بشیر وہی ہیں جن سے عمران خان نے دینی اور روحانی حوالے سے بہت کچھ سیکھا، وہ انہیں اپنا مینٹور سمجھتے تھے۔ اپنی کتاب میں عمران خان نے میاں بشیر کے حوالے سے کئی واقعات اور باتیں رقم کی ہیں۔ میاں بشیر ایک صاحب کشف، صاحب معرفت بزرگ مگر نہایت سادہ اور منکسر مزاج آدمی تھے۔ عمران خان کو انہوں نے اپنی پہلی ملاقات میں وہ بتایا کہ خان ہکا بکا رہ گیا۔ بعد میں جمائما خان سے اپنی پہلی ملاقات میں بھی میاں بشیر نے نوجوان جمائمہ کو ایسے ہی حیرت زدہ کر دیا تھا۔

کل اور آج کے حالات

عمران خان آج زیادہ مشکل نوعیت کے مختلف کیسز میں الجھے ہوئے ہیں، ان کے وکلااور حامی اس حوالے سے بعض تحفظات بھی رکھتے ہیں۔ماضی کے جس کیس کا ہم نے اوپر ذکر کیا، یہ عمران خان کی زندگی کا بہت اہم موڑ تھا۔ اس میں جیت نے عمران خان کو یہاں تک پہنچایا۔ عمران خان کے بیان اور ایلن لیمب کی کتاب کو پڑھیں تو یہی لگے گا کہ تقدیر نے عمران خان کا ساتھ دیا اور وہ فاتح ہوا۔

دیکھیں ان کے حالیہ کیسز میں تقدیر ان کے ساتھ کیا کرتی ہے؟

سمیرا خان
سمیرا خان
سمیرا بول نیوز پاکستان پر لکھاری ہیں۔ سمیرا گزشتہ 2 سالوں سے بول نیوز پر کام کر رہی ہیں اور سیلف ڈویلپمنٹ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ اور سوشل میڈیا کا مطالعہ کر رہی ہیں۔ بول نیوز دنیا کا سب سے بڑا نیوز چینل ہے۔ سمیرا سوشل میڈیا بہت کم استعمال کرتی ہیں، اس لیے آپ ان کو صرف ٹوٹر پر ہی دیکھ سکتے ہیں۔