مزید پڑھیں

خاتون کے ریپ میں مجرم ثابت ہونے والے اسلامی اسکالر طارق رمضان کون ہیں؟

جنیوا کی ایک عدالت نے عالمی شہرت یافتہ اسلامی اسکالر طارق رمضان کو نومسلم سوئس خاتون کے ساتھ 16 سال قبل ایک ہوٹل میں جنسی زیادتی اور ہراسانی کے الزام پر مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں تین سال قید کی سزا سنا دی ہے۔

گزشتہ برس ایک نچلی عدالت نے شواہد کی کمی اور متضاد شہادتوں کے پیش نظر طارق رمضان کو اس کیس میں بری کر دیا تھا۔ جس کے بعد متاثرہ خاتون نے سوئٹزرلینڈ کی شہری ہونے کی حیثیت سے جنیوا کی ایک عدالت میں بریت کے خلاف مقدمہ دائر کیا تھا۔

پروفیسر طارق رمضان اپنی سزا کے خلاف وفاقی عدالت میں اپیل دائر کر سکتے ہیں۔ متاثرہ خاتون جو ایک مسلمان ہیں، ان کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی بلکہ انہیں ایک عرفیت ”بریجیٹ“ دی گئی ہے اور یہی ان کی شناخت بن گئی ہے۔

خاتون نے الزام عائد کیا تھا کہ اسلامی تعلیمات کے حصول کے سلسلے میں پروفیسر طارق رمضان سے رابطہ ہوا تھا اور ان کے کہنے پر 2008 میں ایک ہوٹل میں ملنے گئی تھی۔

خاتون کے بقول پروفیسر طارق رمضان نے ہوٹل میں انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور ڈراتے دھمکاتے رہے۔ بعد ازاں جنسی طور پر ہراساں کرتے رہے۔

پروفیسر طارق رمضان کون ہیں؟

پروفیسر طارق رمضان عرب دنیا کی سب سے بڑی اور منظم تنظیم الاخوان المسلمون کے بانی کے امام حسن البنا کے پوتے اور یورپ میں مقبول اسلامی اسکالر کی حیثیت رکھتے ہیں اور آکسفورڈ یونیورسٹی میں بطور پروفیسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں وہ یورپ کے علاوہ مشرق وسطیٰ اور ایشیا بھر میں بھی اسلامی لیکچرز دیتے رہے ہیں جس کے لیے ان کا ان ممالک میں آنا جانا رہتا ہے۔

ٹائم میگزین نے انہیں 2004 میں دنیا کے 100 بااثر لوگوں میں بھی شامل کیا تھا تاہم 2009 میں فرانس میں جنسی تشدد کا ایک واقعہ سامنے کے بعد سے ان مقبولیت کو ٹھیس پہنچی تھی۔

بعد ازاں 2000 تک مزید 4 فرانسیسی خواتین نے طارق رمضان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا۔ اس کے بعد 2018 میں سوئس خاتون کا کیس سامنے آیا تھا۔

ان سنگین الزامات کے سامنے آنے پر آکسفورڈ یونیورسٹی نے طارق رمضان کو پڑھانے سے روک دیا تھا جہاں وہ شعبہ عصری اسلامی علوم میں 12 سال سے پروفیسر تھے۔

الزامات پر طارق رمضان کا موقف

دوسری جانب ان مقدمات پر طارق کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان خواتین کے ساتھ ’ایک بھی ایسا عمل، برتاؤ یا جنسی عمل نہیں کیا جس پر پہلے بات نہ کی گئی ہو‘۔

طارق رمضان نے 2018 میں اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے ایک فرانسیسی خاتون کے ساتھ جنسی تعلق رکھا تھا۔ بعد ازاں طارق نے ڈپریشن سمیت متعدد ذہنی امراض میں مبتلا ہونے کا کہہ کر ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔

یاد رہے کہ 2020 میں طارق رمضان نے اپنی کتاب کی رونمائی اور ایک ٹی وی پروگرام میں جنسی زیادتی کا الزام لگانے والی پانچوں خواتین کی شناخت ظاہر کردی تھی جس پر فرانسیسی عدالت نے ان کو 10 ہزار یورو جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

طارق رمضان جنسی زیادتی کیس میں دو ماہ قید بھی رہے ہیں۔ انہیں جیل میں اچھے برتاؤ کے باعث ضمانت پر رہا کیا گیا تھا جبکہ اُن پر اپنے افیئرز کو چھپانے کے لیے رقم کے عوض سوشل میڈیا پوسٹیں اور مواد ہٹوانے کا بھی الزام ہے۔

جماعت اسلامی کا تعلق

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، انڈیا اور بنگلا دیش کی جماعت اسلامی بھی خود کو اخوان المسلمین سے جوڑتی ہے اور جماعت اسلامی کو اخوانی فکر کی تنظیم کہا جاتا ہے۔ تاریخی طور پر دونوں جماعتوں میں ایک دوسرے سے تعلق اور باہمی تعامل بھی ثابت ہے۔